Saturday, August 28, 2010
دلِ بے چین
آج نجانے دل کیوں بے چین ہے۔
تمہی کو یاد کرتا ہے۔
تمہی سے بات کرتا ہے۔
تمہی کو پانا چاہتا ہے۔
مگر اب یہ نہیں ممکن۔
ہاں اب یہ نہیں ممکن۔
میری باتیں
آج نجانے دل کیوں بے چین ہے۔
آج یونہی یاد آ گیا کہ ایک سال پہلے انہی دنوں میں ایک بلاگ بھی بنایا تھا دیکھیں تو سہی کہ کیا حال ہو گیا ہے لیکن یہاں تو کچھ بھی نہیں بدلا۔ وقت تھم سا گیا ہے جیسا چھوڑا تھا ویسا ہی ہے۔ میں یہاں یہ بالکل نہیں بتانے والا کہ پچھلے ایک سال میں کیا کیا ہوا۔ بس ایسے ہی ایک پوسٹ کرنے کو دل چاہ رہا تھا، سو کر دی۔
کراچی میں رمضان کی آمد ان شاء اللہ آج بعد نمازِ مغرب متوقّع ہے۔رمضان المبارک تمام مہینوں کا سردار ہے۔ اس مہینے میں رحمتوں کا نزول اس کثرت سے ہوتا ہے کہ کسی دوسرے مہینے میں نہیں ہوتا۔ اس مہینے میں ایک رات شبِ قدر ہے جس میں کی گئی مقبول عبادت کا ثواب ہزار راتوں میں کی گئی عبادتوں سے بھی ذیادہ ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ لوٹ سیل کا مہینہ ہے۔ اس میں ہر عبادت میں ثواب دوگُنا نہیں، چار گُنا بھی نہیں، ستّر گنا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ہمارے آفس کے سامنے والی مشہور ملبوسات کی دکان نے ٪٦٠ تخفیف کا اشتہار آویزاں کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے رش بڑھتا گیا اور دُکان کا مال ختم ہوتا گیا۔ کیوں کہ عام حالات میں یہ نہایت مہنگا ہوتا ہے۔ کچھ پیشکشیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ ایک کی قیمت میں دو حاصل کریں۔ تو وہاں بھی ایسا ہی حال ہوتا ہے ، سب مال دنوں میں صاف ہو جاتا ہے۔رمضان میں تو اللہ میاں نے ایک کے بدلے ستّر دینے کا وعدہ کیا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ ہم لوگ سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو تمام عباستوں سے فوائد سرف اور صرف انسان کو ہی حاصل ہوتے ہیں۔ اللہ میاں کو تو کچھ بھی نہیں چاہیئے وہ تو صرف دینے کے بہانے ڈھوندتا ہے اور ہم ایسے کہ کنی کترا جاتے ہیں۔
روزہ رکھنا مشکل ہے کیا؟؟؟ عام دنوں میں ہم ایک ناشتہ اور دو کھانوں کے ساتھ دن گزارتے ہیں۔ سوچیں ہم رمضان میں کتنا کھاتے ہیں۔ اللہ کا کروڑ ہا شکر ہے کہ عام دنوں سے ذیادہ ہی ملتا ہے۔ ایک سحری ایک کھانے کے برابر ہوئی، پھر افطار بھی ایک کھانے کے برابر ہی ہوئی اور پھر تراویح کے بعد بھی ہم کچھ کھا ہی لیتے ہیں یہ ناشتہ کے برابر ہوا۔ تو کمی کہاں آئی۔ اب دیکھیں کہ روزہ ہے کتنا۔ سحری کھائی نماز پڑھی سو گئے۔ آفس کے لیئے اٹھے ناشتے کی جگہ سحری تو کر لی ہے نا تو ظہر تک کی کھانے کی چھٹّی۔ آفس سے آئے تو سو گئے اب عصر میں اٹھنا ہے۔ نمازِ عصر کے بعد اب وقت ہی کتنا رہ گیا۔ یہ ہی اصل روزے کو محسوس کرنے کا وقت ہے۔ سوچیں ہم کو تو اللہ کا شکر ہے ایک وقت کا فاقہ نہیں ہوتا۔ جن لوگوں کو پورا دن یا دنوں کچھ کھانے کو نہیں ملتا ان کا کیا ہوتا ہو گا۔ کبھی سوچا؟؟؟ اس وقت ضرور سوچئے گا۔ میں تو اگر کچن میں چلا جاؤں تو وقت ہی کم پڑ جاتا ہے کہ افطار بنانے میں اتنا مصروف کہ معلوم نہیں کب روزہ کھل گیا۔ اب جو دل چاہے کھاؤ پیو منع کس نے کیا ہے۔ ایک سے دو گھنٹے کا تو روزہ ہے اور ثواب اتنا کہ اللہ کہتا ہے کہ اس کی جزا میں خود ہوں۔ کوئی چیز نہیں کہا کہ جنت ملے گی، یاقوت کا محل ملے گا، دودھ کی نہریں ملیں گی۔ کہا اس کی جزا میں خود ہوں۔ خود بتاؤ ایک طرف خزانہ ہے اور دوسری طرف خزانہ بانٹنے والا شہنشاہ تو آپ کس کی خواہش کرو گے؟؟؟اللہ تعالیٰ ہم سب کو خیر و عافیت سے رمضان المبارک کے روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اس مہینے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمارے لیئے جو خیر و برکت کی دعائیں مانگیں ہیں ہمیں ان کا اہل بنا۔ آمین۔
Labels: اسلام, رمضان المبارک, مذہب
السلام و علیکم!
مصروفیت ایسی خاص بھی نہ تھی بس دل لکھنے کی طرف مائل ہی نہ تھا۔ خیر اللہ اللہ کر کے ارادہ باندھا ہے تو انشاء اللہ پورا کر ہی لوں گا۔ چوں کہ میں کوئی لکھاری تو ہوں نہیں اور نہ ہی کبھی ڈائری لکھنے کا شوق رہا ہے تو یقیناً جملوں کے بے ربط ہونے کا احساس نمایاں رہے گا جس کے لیئے پیشگی معذرت خواہ ہوں۔
بہت کھنگالنا بھی نہیں پڑے گا کیوں کہ بچپن تقریباً سب کا ہی خوبصورت ہوتا ہے جو ہمارا بھی تھا تو بھئی یاد کرنے والی تو کوئی بات ہی نہیں ہے۔ یہ تو سب آنکھوں کے سامنے ہی موجود ہے۔ بچپن بھی کیا بے فکری کی زندگی ہوتی ہے، فکر نہ فاقہ عیش کر کاکا کے مصداق۔
ہوش سنبھالا تو جانا کہ ہم سے بڑے ایک بھائی اور بہن پہلے ہی موجود ہیں اور ہمارا نمبر آخری ہے۔ بہت لاڈلے ہونے کی بنا پر کافی حد تک شرمیلے واقع ہوئے ہیں اسی لیئے جلدی گھل مل جانا عادت میں شامل ہی نہیں ہے۔ اسی لیئے دوست احباب کا دائرہ بھی کافی مختصر ہے۔ نیٹ کی دوستیاں اور جان پہچان صرف اور صرف اردو کی جستجو میں ہوئی ہیں۔ میں نے اس سے پہلے خود کو کبھی ظاہر نہیں کیا۔ بس اجنبی ناموں سے سرسری بات چیت اور بس۔
خیر تو ذکر ہو رہا تھا بچپن کا تو جناب بچپن کا ذیادہ وقت گھر میں دادا کے ساتھ کھیلتے رہتے تھے، اگرچہ وہ ساتھ تو نہ رہتے تھے مگر رہائش بہت نزدیک ہونے کی وجہ سے روز کا آنا ایک معمول تھا۔
دادا کے ساتھ ہی ساتھ ہمارے نانا کی رہائش بھی انتہائی قریب تھی۔ اسے یوں سمجھیں کہ جیسے یہ ایک تکوں بن گئی ہے جس کے ہر کونےکا فاصلہ اندازاً 50 سے 60 قدم ہے۔ وضاحت اس لیئےدی ہے کہ اگلی اقساط میں کوئی بات فوراً دادا یا نانا کے گھر کی طرف نکل جائے تو بات سمجھ میں آ جائے۔ ویسے ددیھال اور ننیھال کا ایک ساتھ اتنے قریب ہونا کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔
ددیھال سے ذیادہ ہمارا دل ننیھال میں لگتا تھا وہ بھی نانا کے پاس، جس کی وجہ تھی ان سے کہانیاں سننا۔ اصل میں ہم جب بھی بیمار وغیرہ ہوتے تھے نانا کے پاس پہنچا دیئے جاتے تھے۔ پھر نانا ہمیں کہانیاں سنا کر بہلاتے تھے۔ ان کی کہانیاں یہاں سے شروع ہوتی تھی "کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کر تا تھا" پہلا جملہ تو ہر کہانی کا یہی ہوتا تھا مگر باقی کہانی ہمیشہ مختلف ہوتی تھی۔ کبھی بادشاہوں کی، کبھی سند باد کی تو کبھی پریوں، جنوں اور دیو کی، کبھی ہندوستان کے اصلی بادشاہوں کے قصے، کبھی اولیاء اللہ کے واقعات، غرض ہر طرح کے قصے کہانیاں تیار ملتے تھے۔ اس کہانی ہی کے مزے میں ہم خوشی خوشی ناناکے پاس جایا کرتے تھے۔ پھر اگر نانا سو جاتے تو ہم نانی اماں کے پاس آ دھمکتے وہ ہمیں قرآن کریم سے انبیاء علیہم السلام کے واقعات سناتیں۔ ان سب میں کچھ سمجھ میں آتے کچھ نہیں آتے لیکن ہمیں تو سننے کا چسکا تھا سو ہم سنتے جاتے۔ اگر کوئی واقعہ اچھا لگتا تو ہم اگلی بار پھر سے فرمائیش کر دیتے اور نانی اماں وہی قصہ دوبارہ سنا دیتیں اور ہم ایسے شوق سے سننے لگتے جیسے پہلی بار سن رہے ہوں۔
مجھے لگ رہا ہے کہ اگر اور ذیادہ لکھا تو بوریت ہو جائے گی اس لیئے باقی آئیندہ۔ اللہ حافظ
Labels: عمرانیات
السلام و علیکم!
تیندن ہو گئے اور ابھی چار دن اور باقی ہیں۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ میرا بیٹا ایک ہفتہ کے لیئے اپنی امی کے ساتھ اپنی نانی کے گھر گیا ہوا ہے۔ اس کے جانے سے گھر کا شور ہنگامہ تھم سا جاتا ہے۔زندگی میں کچھ کمی سے محسوس ہونے لگتی ہے۔ عموماً صبح میں اسی کی آواز یا اس کے جھنجھوڑنے سے اٹھتا ہوں۔ پھر ہم دونوں ساتھ ساتھ تیار ہوتے ہیں۔ نہاتے ہیں، کپڑے بدلتے ہیں، ناشتہ کرتے ہیں۔پھر میں آفس چلا جاتا ہوں اور وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ بستر میں یا دادا کے پاس۔ اب دس ماہ کا بچہ اور کیا کرے؟
لیکن جب وہ نانی کے ہاں جاتے ہیں تو مجھے الارم سے اٹھنا پڑتا ہے۔ کسی کام میں دل نہیں لگتا۔ ویسے تو میں آفس سے جلدی گھر آ جاتا ہوں لیکن وہ نہ ہو تو آفس سے بھی دیر سے نکلتا ہوں۔ پھر گھر آ کر یا تو اخبار پڑھنے بیٹھ جاتا ہوں یا ٹی وی پر کوئی پروگرام دیکھتا ہوں۔ اور یاد آتی ہے تو کمپیوٹر پر اس کی تصاویر اور موویز دیکھ کر جی بہلا لیتا ہوں۔ فون پر تو مجھے معلوم ہے وہ صاحب بات کرتے ہی نہیں ہیں۔ میری آواز توجہ سے سنتے ضرور ہیں مگر خاموشی سے صرف مسکراتے رہتے ہیں۔ مجال ہے جو غوں غاں یا ہاں ہوں کر دیں۔ لیکن وہاں ان کا بھی یہی حال ہوتا ہے بولائے بولائے پھرتے ہیں اور "اَب۔۔بُو، بابا" کی رٹ لگاتے رہتے ہیں۔سچ ہے بچوں کے بنا گھر سونا ہو جاتا ہے۔اللہ حافظ
Labels: عمرانیات
السلام و علیکم!
جب بہت دیر تک کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا لکھوں تو خیال آیا کہ انسان کو اپنی ذات سےہی شروع کرنا چاہیے، کچھ اپنے بارے میں بتانا چاہیے کیوں کہ لوگ اپنے بارے میں تو کچھ نہ کچھ جانتے ہی ہیں پر دوسروں کے بارے میں جاننے میں ذیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔
انٹرنیٹ کی دنیا میں بہت تھوڑے لوگ یہ بات جانتے ہوں گے کہ مجھے کس نام سے پکارا جاتا ہے۔ جو نہیں جانتے وہ جان لیں کہ متصدقہ سرٹیفیکیٹس میں اسمِ شریف عمران ضیاء درج ہے۔جب اس شہر میں آنکھ کھولی تو یہ روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا۔اب اکثر تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ ویسے مجھے اِس جہاںِ فانی میں آئے ہوئے کافی زمانے بیت چکے ہیں مگر لگتا ہے کہ ابھی تو آئے تھے اور اتنا وقت گزر گیا۔ خیر سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوں اور صاحبِ اولاد بھی۔ ایک پرائیویٹ فرم میں اچھی پوسٹ پر ہوں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا بہت کرم ہے۔
تو دوستوں اب تک کے لیئے اتنا ہی۔یار باقی، صحبت برہم۔اللہ حافظ
Labels: عمرانیات
Labels: پاکستان کا قومی ترانہ