ابو کاشان کا بلاگ

میری باتیں

Friday, August 29, 2008

عمرانیات - قسط 3

السلام و علیکم!
مصروفیت ایسی خاص بھی نہ تھی بس دل لکھنے کی طرف مائل ہی نہ تھا۔ خیر اللہ اللہ کر کے ارادہ باندھا ہے تو انشاء اللہ پورا کر ہی لوں گا۔ چوں کہ میں کوئی لکھاری تو ہوں نہیں اور نہ ہی کبھی ڈائری لکھنے کا شوق رہا ہے تو یقیناً جملوں کے بے ربط ہونے کا احساس نمایاں رہے گا جس کے لیئے پیشگی معذرت خواہ ہوں۔
بہت کھنگالنا بھی نہیں پڑے گا کیوں کہ بچپن تقریباً سب کا ہی خوبصورت ہوتا ہے جو ہمارا بھی تھا تو بھئی یاد کرنے والی تو کوئی بات ہی نہیں ہے۔ یہ تو سب آنکھوں کے سامنے ہی موجود ہے۔ بچپن بھی کیا بے فکری کی زندگی ہوتی ہے، فکر نہ فاقہ عیش کر کاکا کے مصداق۔
ہوش سنبھالا تو جانا کہ ہم سے بڑے ایک بھائی اور بہن پہلے ہی موجود ہیں اور ہمارا نمبر آخری ہے۔ بہت لاڈلے ہونے کی بنا پر کافی حد تک شرمیلے واقع ہوئے ہیں اسی لیئے جلدی گھل مل جانا عادت میں شامل ہی نہیں ہے۔ اسی لیئے دوست احباب کا دائرہ بھی کافی مختصر ہے۔ نیٹ کی دوستیاں اور جان پہچان صرف اور صرف اردو کی جستجو میں ہوئی ہیں۔ میں نے اس سے پہلے خود کو کبھی ظاہر نہیں کیا۔ بس اجنبی ناموں سے سرسری بات چیت اور بس۔
خیر تو ذکر ہو رہا تھا بچپن کا تو جناب بچپن کا ذیادہ وقت گھر میں دادا کے ساتھ کھیلتے رہتے تھے، اگرچہ وہ ساتھ تو نہ رہتے تھے مگر رہائش بہت نزدیک ہونے کی وجہ سے روز کا آنا ایک معمول تھا۔
دادا کے ساتھ ہی ساتھ ہمارے نانا کی رہائش بھی انتہائی قریب تھی۔ اسے یوں سمجھیں کہ جیسے یہ ایک تکوں بن گئی ہے جس کے ہر کونےکا فاصلہ اندازاً 50 سے 60 قدم ہے۔ وضاحت اس لیئےدی ہے کہ اگلی اقساط میں کوئی بات فوراً دادا یا نانا کے گھر کی طرف نکل جائے تو بات سمجھ میں آ جائے۔ ویسے ددیھال اور ننیھال کا ایک ساتھ اتنے قریب ہونا کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔
ددیھال سے ذیادہ ہمارا دل ننیھال میں لگتا تھا وہ بھی نانا کے پاس، جس کی وجہ تھی ان سے کہانیاں سننا۔ اصل میں ہم جب بھی بیمار وغیرہ ہوتے تھے نانا کے پاس پہنچا دیئے جاتے تھے۔ پھر نانا ہمیں کہانیاں سنا کر بہلاتے تھے۔ ان کی کہانیاں یہاں سے شروع ہوتی تھی "کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کر تا تھا" پہلا جملہ تو ہر کہانی کا یہی ہوتا تھا مگر باقی کہانی ہمیشہ مختلف ہوتی تھی۔ کبھی بادشاہوں کی، کبھی سند باد کی تو کبھی پریوں، جنوں اور دیو کی، کبھی ہندوستان کے اصلی بادشاہوں کے قصے، کبھی اولیاء اللہ کے واقعات، غرض ہر طرح کے قصے کہانیاں تیار ملتے تھے۔ اس کہانی ہی کے مزے میں ہم خوشی خوشی ناناکے پاس جایا کرتے تھے۔ پھر اگر نانا سو جاتے تو ہم نانی اماں کے پاس آ دھمکتے وہ ہمیں قرآن کریم سے انبیاء علیہم السلام کے واقعات سناتیں۔ ان سب میں کچھ سمجھ میں آتے کچھ نہیں آتے لیکن ہمیں تو سننے کا چسکا تھا سو ہم سنتے جاتے۔ اگر کوئی واقعہ اچھا لگتا تو ہم اگلی بار پھر سے فرمائیش کر دیتے اور نانی اماں وہی قصہ دوبارہ سنا دیتیں اور ہم ایسے شوق سے سننے لگتے جیسے پہلی بار سن رہے ہوں۔

مجھے لگ رہا ہے کہ اگر اور ذیادہ لکھا تو بوریت ہو جائے گی اس لیئے باقی آئیندہ۔ اللہ حافظ

Labels:

2 تبصرہ جات:

Anonymous Anonymous نے کہا:

السلام علیکم ابو کاشان بھائی ، بالآخر یہاں تبصرہ کا آپشن سمجھ میں آ گیا ہے ، پچھلی بار تو ہو کے ہی نہیں دیا تھا ۔

بلاگ دنیا میں خوش آمدید

August 31, 2008 at 1:41 AM

 
Blogger ابو کاشان نے کہا:

وعلیکم السّلام!
آپ کی آمد کا شکریہ.
آپ نے پوچھا تھا کہ میرا کوئی بلاگ urdutech.net پر بھی ہے تو اس کا ربط یہ ہے.
http://abukashan.urdutech.net
شکریہ
والسّلام

August 31, 2008 at 5:21 AM

 

Post a Comment

<< صفحہ اول